کتاب: قربانی کی شرعی حیثیت اور پرویزی دلائل پر تبصرہ - صفحہ 20
آپ (حضرت ابراہیم) خواب کے ایک اشارے سے یہ سمجھے کہ حکم ملا ہے کہ بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے ہر چند یہ حکم نہ تھا محض خواب میں ایسا دیکھا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کو کچھ اوپر کا اشارہ سمجھ لیا اور ایسی تحیر انگیز اور ہوش ربا قربانی کے لئے تیار ہوئے۔ بیٹے سے پوچھا، کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ اب بیٹے کا جواب بھی سن لیجئے، عرض کیا:
[يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ١٠٢ ]
’’اباجان! جس بات کا اشارہ آپ کو ملا ہے، اسے بلا تامل کر گزرئیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔‘‘ (صفحہ نمبر: 154-155)
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس قربانی کا حکم نہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اپنی محبت اور شیفتگی کے جوش میں خواب کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور بیٹے کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے۔ لیکن جس وقت انہوں نے چھری ہاتھ میں لی تو اس وقت آپ کو بتایا گیا کہ خواب کے مجاز کی حقیقت کیا تھی۔ (صفحہ نمبر: 155-156)