کتاب: قربانی کی شرعی حیثیت اور پرویزی دلائل پر تبصرہ - صفحہ 18
اس لئے اس کی تعمیل ضروری ہے۔ بیٹے سے ذکر کیا تو اس نے بھی کہا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو اس کی تعمیل میں قطعاً تامل نہ کیجئے۔ میں ذبح ہونے کو تیار ہوں۔ آپ نے بیٹے کو لٹا دیا۔ اس کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ نے پکارا کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو حکم اللہ پر محمول کر کے اس کی پوری تعمیل کر دی۔ اس لئے ظاہر ہے کہ اگر تمہیں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے بھی حکم دیا گیا تو تم اسے بلاتامل پورا کرو گے۔ یقیناً باپ اور بیٹا دونوں اطاعت و تسلیم کے بلند ترین مقام پر فائز ہو۔ اس بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی تولیت کے لئے منتخب کر لیا۔ قرآن میں بس اتنا ہی واقعہ ہے۔ تورات میں البتہ یہ بھی ہے کہ جبریل نے جنت سے ایک مینڈھا لا کر بیٹے کی جگہ لٹا دیا اور چھڑی بیٹے کی جگہ مینڈھے پر چل گئی لیکن یہ تو ایک اسرائیلی افسانوں میں سے افسانہ ہے۔ قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔‘‘ (صفحہ نمبر: 64-65)
6۔ ’’مذہبی رسومات کی ان دیمک خوردہ لکڑیوں کو قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے سہارے دئے جاتے ہیں، کہیں قربانی کو سنت ابراہیمی قرار دیا جاتا ہے، کہیں اسے تقرب الٰہی کا ذریعہ بتایا جاتا ہے، کہیں دوزخ سے محفوظ گزر جانے کی سواری بنا کر دکھایا جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر 64)