کتاب: قربانی کی شرعی حیثیت اور پرویزی دلائل پر تبصرہ - صفحہ 17
گے۔ ان مذاکرات کے ساتھ باہمی ضیافتیں بھی ہوں گی ۔ آج صبح پاکستان والوں کے ہاں! شام کو اہل افغانستان کے ہاں! اگلی صبح اہل شام کی طرف سے (وقس علی ذالك) ان دعوتوں میں مقامی لوگ بھی شامل کر لئے جائیں گے، امیر بھی اور غریب بھی! اس مقصد کے لئے جو جانور ذبح کئے جائیں گے قربانی کے جانور کہلائیں گے۔ چونکہ اس اجتماع کا مقصد نہایت بلند اور خالصتاً لوجہ اللہ ہے۔ اس لئے پروگرام کی ہر کڑی اللہ کے قریب لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہے قربانی کی اصل! اس لئے قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ قربانی کے جانوروں کی منزل مقصود بیت اللہ ہے۔ ﴿ ثُمَّ مَحِلُّهَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ 33ۧ ﴾ (صفحہ نمبر: 55)
4۔ ’’تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ میں قربانی نہیں دی۔ حج 9 ھ میں فرض ہوا۔ حضور اس سال تشریف نہیں لے گئے۔ لیکن اپنی طرف سے کچھ جانور امیر کارواں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دئے کہ وہاں مصرف میں لائے جائیں۔ اگلے سال خود حضور حج کے لئے تشریف لے گئے، اور وہیں جانور ذبح کئے ۔ لہٰذا ہرجگہ قربانی دینا نہ حکم اللہ ہے اور نہ سنت ابراہیمی اور نہ سنت محمدی!‘‘ (صفحہ نمبر: 56)
5۔ ’’حضرت ابراہیم کے متعلق قرآن میں ہے کہ آپ نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، آپ نے سمجھا کہ یہ اشارہ غیبی ہے