کتاب: قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں - صفحہ 51
داروں میں سب سےپیارےچچاحمزہ کی طرف سےاورنہ ہی اپنی اولادوں کی طرف سےجوآپ کی زندگی میں وفات پاگئیں تھیں، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اورتین چھوٹےچھوٹےبچےتھے اورنہ اپنی سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے، اورنہ ہی آپ کےعہد میں کسی صحابی ہی سےاپنےکسی وفات شدہ رشتہ دارکی طرف سےقربانی کرناثابت ہے"(دیکھیے:احکام الاضحیۃ والذکاۃ نیز دیکھیے:الشرح الممتع علی زاد المستقنع (7/455۔456)رسالۃ الاضحیۃ (51)اور الجامع للاحکام الاضحیہ (48))
سوم:عام صدقات اورحج پرقیاس:شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتےہیں:" وتجوزالأضحية عن الميت كمايجوز الحج والصدقة عنه "(مجموع فتاوی (26/306)).
یہاں پریہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح کوئی بھی عبادت جب تک کتاب وسنت سےمعمول بہا نہ ہو اس کاکرناجائزنہیں ہے، ٹھیک اسی طرح سنت سےثبوت کےبغیرنیابتا اس کاکرناجائزنہیں ہے، شیخ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں:" وبالأحرى أن لايجوزله القياس عليهاغيرها من العبادات كالصلاة والصيام والقراءة ونحوهامن الطاعات لعدم ورودذلك عنه صلی اللّٰه علیہ وسلم فلايصلى عن أحدولايصوم عن أحد ولايقرأ عن أحد وأصل ذلك كله قول تعالى:﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى﴾(النجم 39 )نعم هناك أموراستثنيت من هذاالأصل بنصوص وردت ..........." (ارواء الغلیل (4/354))" زیادہ مناسب بات یہ ہےکہ قربانی پردیگر عبادات کاقیاس جائزنہیں ہے جیسے نماز، روزہ اورتلاوت وغیرہ جیسی عبادتیں کیونکہ اس سلسلےمیں سنت سےکوئی چیزثابت نہیں ہے، اس لئے کسی کی طرف سےنمازپڑھ سکتاہے، روزہ رکھ سکتاہےاورنہ ہی تلاوت کرسکتاہے اوراس سلسلےمیں دلیل اللہ تعالی کافرمان ﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ﴾