کتاب: قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں - صفحہ 50
اگرمُردوں کی طرف سےقربانی نیک عمل ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف سے ضرورکرتے، یاتقریرًا کسی کو اجازت دیناثابت ہوتا۔ شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں:" قربانی کےسلسلےمیں اصل یہ ہےکہ یہ زندوں کےحق میں مشروع ہےجیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب اپنی طرف سےاوراپنےاہل کی طرف سےکیاکرتےتھے، اوربعض لوگ جو مُردوں کی طرف سےمستقل قربانی کرتےہیں تواس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اورمردے کی طرف سےقربانی کی تین قسمیں ہیں: پہلی:زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں مُردوں کوشامل کرلیاجائے، جیسےقربانی کرتےوقت آدمی اپنےاوراپنےگھروالوں کی طرف سےقربانی کرے اوراس میں زندہ اورمُردہ سب کی نیت کرلے۔ جس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اوراپنےاہل کی طرف سے قربانی کرنی ہے اوراہل میں جوپہلےوفات پاچکےتھے وہ بھی شامل ہیں۔ دوسری:مرنےوالےکی اگروصیت تھی کہ اس کی طرف سےقربانی کرنی ہےتواس کی وصیّت پوری کی جائےگی اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے:﴿فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾(البقرة181)(پس اگرکوئی شخص وصیت سن لینےکےبعداسےبدل دےگا تواس کاگناہ اس کےبدلنے والوں کوہوگا، بےشک اللہ بڑاسننے والا اور جاننے والاہے ) تیسری:اگرمیت کی طرف سے مستقلاً کی جا‏ئے توفقہاء حنابلہ کےنزدیک صدقہ پرقیاس کرتےہوئےاس کاثواب میّت کوپہنچےگا، لیکن میں نہیں سمجھتاکہ خاص میت کی طرف سے قربانی کرناسنت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی کسی بھی بیوی کی طرف سےخصوصی طورسےقربانی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے رشتہ