کتاب: قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں - صفحہ 49
محمد"(مسلم:الاضاحی /3(1967))" اے اللہ محمدکی طرف سے اور محمد کی آل واولاد کی طرف سےاورمحمد کی امّت کی طرف سے اس قربانی کوقبول فرما " . مذکورہ روایت کے لفظ " أمة " کی عمومیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کےاندر زندہ اورمردہ ہرقسم کےلوگ شامل ہیں۔ مذکورہ روایت کے لفظ " أمة " کی عمومیت میں گرچہ فوت شدہ مسلمان بھی شامل ہیں اس کےباوجوداس سےمیت کی طرف سےقربانی کے جوازپراستدلال کئی وجوہات سےدرست نہیں ہے،کیونکہ اس سےزیرِنظر مسئلہ کی پوری وضاحت نہیں ہوپارہی ہے، اس لئےکہ لفظ " أمة " کی عمومیت میں آئندہ نسل بھی شامل ہے،اوریہ معلوم ہےکہ کسی پُراُمّید فرد کی جانب سےقربانی یاکسی بھی قسم کاکارخیرجائزنہیں ہے، نیزکسی شخص کےلئے یہ جائزنہیں ہےکہ وہ پوری امت کی طرف سےقربانی کرے، لہذااس بنیادپریہ عمل نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصائص میں سےہوگا، جیساکہ شیخ البانی رحمہ الله نےحافظ ابن حجررحمہ الله کی فتح الباری کے حوالہ سے بعض اہلِ علم سےنقل کیاہے(دیکھیے:ارواء الغلیل (4/345))۔ نیزصحابہ کرام رضي الله عنهم کی معتدبہ تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی اوربعض نے لمبی عمریں پائیں، اس کے باوجودکسی بھی صحابی سےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےاورنہ ہی کسی دوسرے فوت شدہ شخص کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے، اگریہ کارخیر ہوتا یاجواز کی کوئی صورت ہوتی توصحابہ کرام رضي الله عنهم اس کےکرنےمیں ایک دوسرے سے ضرور سبقت کرتےاوراگرکسی نے کیاہوتاتوہم تک ضرورپہنچتا ؟؟؟ اسی طرح اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےرشتہ داروں میں سب سےپیارے چچاحمزہ رضی اللہ عنہ سب سےپیاری بیوی خدیجہ رضي الله عنها اورآپ کی اپنی اولادیں آپ کی زندگی میں فوت ہوچکی تھیں