کتاب: قربانی کے احکام و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں - صفحہ 16
کواختیارکرتےہیں کیوں کہ اس کےوجوب سےمتعلق آثارنہیں ہیں (دیکھیے:فتح الباري(10/3)نیز دیکھیے:عون المعبود(7/344))۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےمروی ہےکہ:" قربانی سنّت معروفہ ہے" (نیز دیکھیے:البخاري:الأضاحي /1(10/3))
امام ترمذی نےجبلہ بن سحیم سےروایت کیاہےکہ ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےقربانی سے متعلق سوال کیاکہ:کیاقربانی واجب ہے؟ توانہوں نےفرمایا:" ضحى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم والمسلمون"(الترمذي:الضاحي /11(1506)علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ))" اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےاورمسلمانوں نےکیاہے" امام ترمذی فرماتےہیں:" یہ حدیث حسن ہے اوراہل علم کےنزدیک اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہےبلکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سےایک سنّت ہےجس پرعمل مستحب ہے"
قربانی کس کےحق میں مشروع ہے ؟
حنفیہ کےنزدیک قربانی اس آدمی کےحق میں مشروع ہےجواپنی اصلی ضروریات سے زیادہ اور نصاب زکاۃ کا مالک ہو، ان کی دلیل حدیث:"من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا" (رواہ أحمد(2/312)وابن ماجة:رقم(3123)و الحاكم(4/258)ووافقه الذهبي وحسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة(رقم 2532))
" جو وسعت کےباوجودقربانی نہ کرےہووہ ہماری عیدگاہ کےقریب نہ آئے" ہے (ديكھیے:تبيين الحقائق(6/3)بدائع الصنائع(4/196)حاشية ابن عابدين(6/312))