کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 67
(صحیح مسلم کتاب الطھارہ باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء رقم الحدیث 249) ان آثار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لوگوں کو پہچانیں گے اب اگر اصحاب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے تو یہ بالکل سیاق کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو بخوبی چہروں سے پہچانتے تھے کہ یہ ابو بکررضی اللہ عنہ ہیں یہ عمررضی اللہ عنہ ہیں یہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا صحابی کایہ فرمانا کہ آپ کیسے پہچانیں گے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصحاب سے مراد امتی ہیں جیساکہ دوسری حدیث میں اسکی وضاحت موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ۔۔۔۔۔۔۔ قالت اسماء عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال انا علی حوضی انتظر من یرد علی فیؤخذ بناس من دونی فأقول امتی۔ ۔۔۔۔۔۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن باب واتقوا فتنۃ لاتصیبن۔۔۔۔رقم الحدیث 7048) ’’اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہافرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(کہ قیامت کے دن) میں اپنے حوض پر ہونگا اتنے میں کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے ،ان کو فرشتے گرفتار کرلیں گے میں کہوں گا یہ تو میری امت کے لوگ ہیں ،جواب ملے گا آپ نہیں جانتے کہ یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ پچھلی حدیث میں اصحاب کا لفظ وارد ہوا ہے جسکی وضاحت اگلی حدیث سے ہوتی ہے کہ اصحاب سے مراد صحابہ نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں درمیان میں جو حدیث نقل کی ہے وہ مزید اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ صحابی نے پوچھا کہ آپ کیسے اپنی امت کے لوگوں کو پہچانیں گے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جارہا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرامتی سے ملاقات نہیں کی اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ’’وضو کے آثار سے ‘‘مزید اگر ہم غور کریں تو’’ لغت‘‘ میں بھی اصحاب کا مطلب صرف صحابہ کرام نہیں بلکہ اصحاب کا مطلب ’’اتباع کرنے والے ‘‘ ہیں یعنی قیامت تک جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا ہوگا وہ آپ کے اصحاب (یعنی امتی) میں ہوگا۔ (دیکھیئے المعجم الوسیط ص507 ) ایک مثال سے میں سمجھانا چاہوں گا کہ اگر کسی مسئلے پر اما م ابو حنیفہ فتوی دیتے ہیں تو کتب شروحات اور کتب فقہ میں اس طرح لکھا ہوتا ہے :’’الیہ ذھب اصحاب ابی حنیفۃ ‘‘کہ اسی طرف ابو حنیفہ کے اصحاب گئے۔