کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 50
کا ذکر فرماتا ہے جو ابھی نابالغہ ہے اب مصنف اس آیت کی کیا تاویل پیش کرے گا ؟دراصل مصنف وہم اور پاگل پن کا شکار ہوگیا ہے مصنف نے بلوغت کی عمر ہی کو نکاح کے لئے شرط ٹہرایا دراصل نکاح کی کئی وجوہات ہوتی ہیں ایک تو آدمی نکاح کرتا ہے اپنے دامن کو پاک وصاف رکھنے کے لئے دوسرے حصول اولاد کے لئے عرب معاشرے میں لڑکی جلدبالغ ہوجایا کرتی ہے جیساکہ امام دارقطنی ؒاپنی سنن میں ذکر فرماتے ہیں کہ : ’’عباد بن عبادمہلبی کہتے ہیں میں نے اپنی قوم میں ایک عورت کو پایا جو اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا نو سال کی عمر میں اور اس بیٹی نے بھی نوسال کی عمر میں جنم دیا اس طرح وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی۔‘‘ (دارقطنی کتاب النکاح رقم الحدیث 3836) اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عورت نو سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہے۔جیساکہ موجودہ دور میں اس کی مثال ہے روزنامہ() 29مارچ 1966 میں خبر شائع ہوئی کہ افریقہ میں ایک 8سالہ بچی حاملہ ہوئی اور نو سال کی عمر میں اس نے بچہ جنم دیا۔ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جو واقعتا بھی اس بات کی دلیل ہیں (مزید تفصیل کے لئے میری کتاب اسلام کے مجرم کون ؟کا مطالعہ مفید رہے گا )رہا معاملہ حدیث کا تو وہاں ذکر کچھ اور ہے۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’میرا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سال کی عمر میں ہوا تھا۔ ’’وبنٰی بی وأنا بنت تسع سنین ‘‘ لفظ بنا کا ترجمہ رخصتی ہوتا ہے مصنف نے اس لفظ کا شیطانی ترجمہ کیا ہے کہ’ جنسی کھیل تماشہ ‘جو کہ سراسر غلط ہے ’’حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے : ’’میرا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ برس کی عمر میں ہوااور نو برس کی عمر میں رخصتی۔‘‘دراصل مختلف ممالک میں بلوغت کی عمر مختلف ہوتی ہے بلکہ ایک ہی ملک میں بلوغت کی عمر میں تفاوت پایا جاتا ہے لہٰذا مصنف کا یہ ثابت کرنا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نابالغ تھیں تو یہ سراسربدنیتی اور خیانت ہے۔ اور مصنف کا یہ کہنا کہ سورۃ القمر نبوت کے پانچویں سال نازل ہوئی۔ ۔۔۔۔۔پھر مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ