کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 47
کتب احادیث خصوصا ً صحیح بخاری کو افسانہ گردانتا ہے اور دوسری طرف انہی کتب احادیث سے اپنے مطلب کی باتوں کو بڑے پر حجت انداز میں اخذ کرتا ہے ایسے دوغلے پن پراسلام منافقت کی مہر لگاتا ہے۔ اب آپ کے سامنے میں صحیح بخاری کی وہ حدیث نقل کرتا ہوں جس کو مصنف نے قرآن کے خلاف ٹہراکر بڑی ہوشیاری سے انکار کے چور دروازے کھولنے کی کوشش کی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم فرماتے ہیں : ’’النسوۃ اللا تی یھدین المرأۃ الی زوجھا ‘‘ ’’جو عورتیں دلہن کو (دولہا کے پاس )لے جائیں وہ گاتی بجاتی جاسکتی ہیں۔ پھر اس کے ذیل میں حدیث پیش کرتے ہیں: ’’عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أنھا زفت امرأۃ الی رجل من الانصار فقال۔ ۔۔۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب النکاح رقم الحدیث 5162) ’’عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ وہ ایک دلہن کو ایک انصار ی مرد (دلہے) کے پاس لے گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد مبارک فرمایا عائشہ تمہارے ساتھ کچھ گانا بجانا تو تھا ہی نہیں ( چپ چاپ دلہن کو لے گئیں) دیکھو انصار لوگ گانا بجانے سے خوش ہوتے ہیں ۔‘‘ اس حدیث میں گانا بجانے کے الفاظ موجو دہیں لیکن دوسری حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کہ وہ گانا بجانے والیاں جس سے بجا رہی تھیں وہ دف تھا اور گانا بجانے والیاں کوئی پیشہ ور نہ تھیں مصنف نے جو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے وہ ان گانوں کو جدید موسیقی کے آلات پر استدلال کرکے کچھ اور ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے جوکہ ناکام کوشش ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جس چیز سے موسیقی کا استدلال لیا جاتا تھا وہ صرف دف تھا جیسا کہ صحیح بخاری کتاب العیدین میں حدیث مذکور ہے اور وہ بھی خوشی کے اظہار کے لئے تاکہ نکاح کا اعلان ہوجائے کیونکہ غیر اعلانیہ نکاح سے اسلام روکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اعلنوا للنکاح ‘‘کہ نکاح کا اعلان کرو، اور دف بجانا بھی اس خوشی کے زمرے میں آتا ہے۔ رہی بات گانے کے کیا الفاظ ہوتے ہیں وہ بھی الفاظ کتب احادیث میں درج ہیں۔ جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر فرمایا ہے کہ :