کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 35
’’ اور وہ اللہ کی راہ میں جو بھی دیں مگر ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ آیت مبارکہ پر غور فرمائیں کہ ایمان والے جب بھی خرچ کرتے ہیں تو ان کے دل دھڑکتے ہیں (کہ اللہ کے ہاں مقبول ہوگا کہ نہیں )بتائیے دل کادھڑکنا کیوں؟ یہ دھڑکنا صرف اور صرف تقوی ہے اور اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جیساکہ بخاری میں ام حارثہ رضی اللہ عنہما کا قصہ موجود ہے : ’’کہ حارثہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شہید ہوگئے تو ان کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہنے لگیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ حارثہ رضی اللہ عنہ کا مجھ سے تعلق جانتے ہیں اگر وہ جنت میں ہوا تو میں صبر کرونگی اور اجر کی امید رکھونگی اگر دوسری جگہ ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں (یعنی رونا پیٹنا) فرمایا : بربادی ہو تیرے لئے (یہاں کلمۃ ویحکاستعمال ہوا ہے جو عام طور پر اپنے اصل معنی کے لئے نہیں بولا جاتا ) کیا تو نے بچہ گم کردیا ہے ؟کیا وہ ایک جنت ہے ؟ وہ تو کئی ساری جنتیں ہیں اور وہ (حارثہ ) جنت الفردوس میں ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ والنار رقم الحدیث 6550) اسی وجہ سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہانے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں چوریاں کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اے صدیق کی بیٹی بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں صلوۃقائم کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نامقبول نہ ہوجائیں۔‘‘ (ترمذی کتاب التفسیرباب ومن سورۃ المؤمنین 3175) لہٰذا صحابہ کا نفاق سے ڈرنا یہ محض تقوی کی علامت ہے۔ مثلاً ’’حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو بکر رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا :کیا حال ہے حنظلہ؟ میں نے کہا : حنظلہ کے دل میں نفاق آگیا۔ (تعجب سے)فرمایا سبحان اللہ کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں وہ جنت اور جہنم یاد دلاتے ہیں یہاں تک کہ گویا کہ ہم (جنت وجہنم کو) دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل جاتے اور گھر بار اور مال واولاد میں گھل مل جاتے تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ہمارے