کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 32
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 33پر لکھتا ہے قرآن وسنت سے پاک پانی یاپاک مٹی کے بغیروضو اور طہارت نہیں ہوسکتی ماء طہور کے بغیر طہارت حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ طہارت ووضو کے لئے جو پانی استعمال ہوچکا ہو دوبارہ اسی مستعمل پانی سے بھی وضو ء نہیں ہوسکتا قرآن میں فرمایا ’’ان لم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا‘‘ اگر پاک پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی سے وضو کرلو۔ یعنی تیمم کرلو جب وضو کے قائم مقام تیمم میں پاک مٹی ضروری ہوئی تو پھر اصل یعنی وضو میں پاک پانی ضروری کیوں نہ ہوگا۔ ۔۔۔ جواب:۔ حسب عادت مصنف نے یہاں بھی قرآن پربے جا الزام لگایا ہے جو آیت مصنف نے پیش کی وہ سورۃ المائدہ کی آیت 6ہے اس کا ترجمہ یوں ہے۔ ’’اگر تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کرلو پاکیزہ مٹی سے۔ ۔۔۔۔‘‘ اس آیت کو پیش کرکے مصنف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر کتا کسی پانی میں منہ ڈال دے تو وہ نجس ہوجاتا ہے یہ کس آیت سے استدلال لیا گیا ہے ؟؟جہاں تک امام زہری کا تعلق ہے جس پر مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 34پر تنقید کی ہے کہ : ’’قال الزھری اذاولغ الکلب فی اناء لیس لہ وضوء غیرھ یتوضابہ۔۔۔۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الوضوء باب الماء الذی یغسل بہ شعرالانسان جلد1 باب 33) ’’امام زہری کہتے ہیں اگر کسی برتن میں کتا منہ ڈالے اس کے علاوہ اور پانی نہ ہو تو کتے کے اس جھوٹے سے وضو کیا جائے گا۔ ۔۔۔۔۔‘‘ یہ قول امام زہری کا حالت اضطرابی کے لئے ہے یعنی قرآن کہتا ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو یعنی حالت اضطرابی میں اگر مٹی سے تیمم کو جائز قرار دیا گیا تو وہ تو بالاولی پانی ہی ہے جس میں کتے نے منہ ڈالاہے۔ یعنی امام زہری کا استدلال حالت مجبوری پر محصور ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ مصنف اعتراض سے پہلے سلف کے ا قوال کی طرف بھی رجوع کرلیتا۔