کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 13
بتایئے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز کو اپنے لئے حرام کردیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیاتھا۔یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فعل(ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا۔ اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے۔ قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیاً مَّنْسِیّاً (مریم 19؍23) ’’کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا۔ ‘‘ غور طلب بات ہے کہ مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا۔ اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں ؟؟مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے اپنی کتاب کے صفحہ 13پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ۔‘‘ قارئین کرام مندرجہ بالاحدیث جس سے مصنف نے حجت پکڑی ہے اسے امام الدنیا ، امیرالمحدثین ، شیخ الاسلام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف صحیح بخاری میں نقل کی ہے۔ مصنف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 14پر امام بخاری رحمہ اللہ کو دشمن رسالت باورکرایا ہے مصنف کی اس حالت کو کیا کہیں یہ تو نشہ اور مستی کی حالت ہے یا تو یہ مصنف کی جہالت اور کم علمی کا نشہ ہے یا پھر یہ یہود ونصاری کا آلہ کار ہے۔ یہ صرف شیطان کی پیروی ہے اس کے سوا کچھ نہیں امام بخاری رحمہ اللہ امام المحدثین ہیں جن کی عظمت کو امت مسلمہ تسلیم کرتی ہے مصنف نے جو ان پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے وہ کوشش ان شاء اللّٰہ تباہ و برباد ہوکر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے : ’’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن ‘‘ (الشعراء 26؍3) ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے۔ ‘‘