کتاب: قرآن مقدس اور حدیث مقدس - صفحہ 102
سجدہ کیا نہ مجھ کو سجدہ کا حکم دیا۔ ۔۔۔۔زید بن ثابت سے قرئت خلف الامام کے متعلق ابن یسار نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا قطعاً جائز نہ ہے۔ ۔۔۔ جواب :۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث کتاب سجود ا لقرآن میں مختصراً ذکر کی ہے اور باب باندھا (باب من قرأ السجدۃ ولم یسجد)(باب : جس نے سجدہ کی آیت پڑھی اور سجدہ نہ کیا ) جنہیں امام بخاری کے طریقہ بیان سے واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ باب کی مناسبت سے احادیث مختصراً بھی ذکر کرتے ہیں جیسے یہاں اور کئی مقامات پر بھی لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ خیانت کے الزام سے بری ہیں۔ (10)مصنف صفحہ 98پر لکھتا ہے : ابن یسار نے زید بن ثابت سے قراء ت خلف الامام کے متعلق پوچھا تھا۔ ۔۔۔لاقراء ۃ مع الامام فی شی ء۔ ۔۔۔ اس لئے عمداً اس سوال وجواب کا ذکر اس حدیث سے اڑا دیا۔ ۔۔۔الخ جواب :۔ جہاں تک سوال وجواب اڑانے کا ذکر ہے یہ مصنف کی خیانت ہے اس لئے کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ باب کی مناسبت سے حدیث کو مختصرا ً بھی ذکرکرتے ہیں اور یہاں بھی صرف سجود القرآن کی مناسبت سے حدیث کا ٹکڑا پیش کیا۔ (مکمل حدیث صحیح مسلم کتاب المساجد باب سجود التلاوۃ رقم الحدیث 577 میں مذکور ہے ) زید بن ثابت کا جواب (لاقراء ۃ مع الامام فی شی ء )کہ امام کے ساتھ قرأت نہیں ہے۔ اس بات پر محمول ہے کہ فاتحہ کے علاوہ مقتدی کے لئے قرأت نہیں۔ اس بات کی دلیل وہ احادیث (جن میں سے بعض ہم ذکر کرچکے ہیں )جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو بھی فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔ جیساکہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز پڑھائی تو قرأت بھاری ہوگئی جب نماز مکمل کرکے پلٹے تو فرمایا :میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے