کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 96
’’اللہ تو مومنوں سے اُن کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے،بے شک اللہ کسی خیانت کرنے والے اور کفرانِ نعمت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے،اُن کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں ) کیونکہ اُن پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ (اُن کی مدد کرے گا وہ) یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔‘‘ اکثر علماے سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا ہے،جس کے دو مقصد یہاں بیان کیے گئے ہیں:مظلومیت کا خاتمہ اور اعلاے کلمۃ اللہ۔اس لیے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بے وسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں،جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔اسی طرح اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے کوشش نہ کی جائے اور باطل کی سرکوبی نہ کی جائے تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لیے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے۔ 21۔یتیموں کی اصلاح: سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} ’’(یعنی) دنیا اور آخرت (کی باتوں ) میں (غور کرو) اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اُن کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم اُن سے مل جل کر رہنا