کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 93
مال خرچ کریں ؟ کہہ دو کہ (جو چاہو خرچ کرو،لیکن) جو مال خرچ کرنا ہو وہ (درجہ بہ درجہ اہلِ استحقاق یعنی) ماں باپ کو اور قریب کے رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے،اللہ تعالیٰ اُس کو جانتا ہے۔‘‘ بعض صحابۂ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کیے جا رہے ہیں،یعنی یہ لوگ سب سے زیادہ تمھارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔اس لیے معلوم ہوا کہ انفاق کا یہ حکم صدقاتِ نافلہ سے متعلق ہے،زکات سے متعلق نہیں۔کیونکہ ماں باپ پر زکات کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں۔ حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا: ’’مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرایشی پردوں کا۔‘‘[1] اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے۔افسوس یہ ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے ہیں کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔ 20۔جہاد کا حکم: 1۔سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} ’’(مسلمانو!) تم پر (اللہ کے راستے میں ) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے،وہ تمھیں
[1] بحوالہ أحسن البیان (ص: ۷۵)