کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 89
منڈواؤ (احرام کھول کر حلال نہ ہو) جب تک تمام مناسکِ حج پورے نہ کرلو۔ حج کے متعین مہینے یہ ہیں:شوال،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن۔مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے،لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہوتا ہے،اس لیے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق و فجور سے بچا،وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے،جیسے اس دن پاک تھا،جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔[1] آیاتِ حج میں تقوے سے مراد سوال سے بچنا ہے۔بعض لوگ زادِ راہ لیے بغیر حج کے لیے گھر سے نکل پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے۔اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زادِ راہ لینے کی تاکید کی۔ ۹؍ ذوالحجہ کو زوالِ آفتاب سے غروبِ شمس تک میدانِ عرفات میں وقوف،حج کا سب سے اہم رکن ہے،جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے:(( اَلْحَجُّ عَرَفَۃٌ )) ’’عرفات میں وقوف ہی حج ہے۔‘‘[2] یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے،بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشا کی دو رکعت (قصر) جمع کرکے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائیں گی۔مزدلفہ ہی کو مشعرِ حرام کہا گیا ہے،کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے۔یہاں ذکرِ الٰہی کی تاکید ہے۔یہاں رات گزارنی ہے اور فجر کی نماز ’’غَلَسٌ‘‘ (اندھیرے ) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوعِ آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے،طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ جایا جائے۔
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۵۲۱) شرح صحیح مسلم مع النووي (۴/ ۹/ ۱۱۹) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۹۴۹) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۸۸۹) سنن النسائي (۵/ ۲۵۶) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۰۵۱) وصححہ ابن خزیمۃ و ابن حبان والحاکم والذھبي۔