کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 49
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ}[البقرۃ:۲۰۸] ’’مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمھارا صریح دشمن ہے۔‘‘ یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے اوپر اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اِس کی تصدیق کرنے والوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ تمام احکامات کو بجا لائیں،تمام ممنوعات سے بچ جائیں اور کامل شریعت پر عمل کریں،پھر فرماتا ہے کہ اپنی طاقت بھر اسلام کے تمام احکامات کو مانو،اس کا کوئی عمل نہ چھوڑو،پھر فرماتا ہے کہ اگر تم دلائل معلوم کرلینے کے بعد حق سے ہٹ جاؤ گے تو جان لو کہ رب بھی بدلہ لینے میں غالب ہے،اس سے کوئی بچ کر بھاگ سکتا ہے نہ اس پر غالب آسکتا ہے اور اپنے احکامات کو جاری کرنے میں وہ کفار پر غلبہ رکھتا ہے۔[1] ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ}[البقرۃ:۱۸۶] ’’اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں،میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے،تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں،تاکہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘ دنیا کے اکثر انسان کسی نہ کسی تکلیف،پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہیں۔جب بھی کوئی مصیبت اور پریشانی لاحق ہوتی ہے تو انسان اس سے چھٹکارا حاصل
[1] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۷۰)