کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 484
بدکار۔سخت خو اور اس کے علاوہ بد ذات ہے۔‘‘ یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے،جن کی خاطر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشامد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ -151 بدلے میں زیادہ لینے کی نیت سے کسی پر احسان نہ کرو: سورۃ المدثر (آیت:۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ} ’’اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو۔‘‘ -152 قیامت کو جھٹلانے والے گناہ گار: پارہ 30{عَمَّ}سورۃ المطففین (آیت:۱۲ تا ۱۴) میں فرمایا: {وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ . اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ . کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ} ’’اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے،جو حد سے نکل جانے والا گناہ گار ہے۔جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔دیکھو یہ جو (اعمالِ بد) کرتے ہیں،ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔‘‘ -153 اہلِ ایمان کا مذاق نہ اڑانا: سورۃ المطففین (آیت:۳۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاِذَا مَرُّوْا بِھِمْ یَتَغَامَزُوْنَ} ’’جو گناہ گار (کفار) ہیں وہ (دنیا میں ) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے۔‘‘