کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 476
کسی کی ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے،تاکہ اسے بدنام کیا جائے،یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے،بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی،کوتاہی کسی کے علم میں آجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو،نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو۔ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے،جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں،لیکن بہتان زیادہ بڑا ہے۔ کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا،ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا تو کوئی پسند نہیں کرتا،لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔[1] -141 کبیرہ گناہوں اور فحاشی سے اجتناب کرو: پارہ27{قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ}سورۃ النّجم (آیت:۳۲) میں فرمایا: {اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ھُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ} ’’جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں ا ور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں،بے شک تمھارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے،وہ تمھیں خوب جانتا ہے،جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔‘‘ ’’کَبَائِر‘‘ کَبِیرَۃٌ کی جمع ہے۔کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔زیادہ اہلِ علم کے نزدیک ہر وہ گناہ کبیرہ ہے،جس میں جہنم کی وعید ہے یا جس کے مرتکب کی سخت
[1] پوری سورۃ الحجرات کی تفسیر کے سلسلے میں دیکھیں : صفحہ نمبر (۲۹۶) حاشیہ نمبر (۱)