کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 474
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر خطاب کرو۔اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمھارے عمل برباد ہوسکتے ہیں۔ -139 تمسخر اور عیب چینی کرو نہ کسی کا برا نام رکھو: سورۃ الحجرات (آیت:۱۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ} ’’اے مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے،ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں ) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام رکھو،ایمان لانے کے بعد بُرا نام (رکھنا) گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔‘‘ ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے،جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے۔حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان و عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں ؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے،اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انھیں بھی بطورِ خاص اس سے روک دیا گیا ہے۔حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کو حقیر سمجھنے کو تکبر سے تعبیرکیا گیا ہے: