کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 466
کھانے کے لیے اجازت دی جائے اور اُس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے،لیکن جب تمھاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو،یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ) لیکن اللہ سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو،یہ تمھارے اور اُن کے دونوں کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی کی بات ہے اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبرِ الٰہی کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو،بے شک یہ اللہ کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے۔‘‘ 2۔سورۃ الاحزاب (آیت:۵۷،۵۸) میں فرمایا: {اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا . وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا} ’’جو لوگ اللہ اور اُس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں،اُن پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے اُس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے جو انھوں نے نہ کیا ہو،اِیذا دیں تو انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔‘‘ اللہ کو ایذا دینے کا مطلب برے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ نا پسند فرماتا ہے،ورنہ اللہ کو ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین،یہود اور نصاریٰ وغیرہ اﷲ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں یا جس طرح حدیثِ قدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: