کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 462
کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا} ’’اے پیغمبر! اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا،بے شک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنّا ہوجائے،جب اللہ تعالیٰ اپنے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات تاکید سے کہیں تو ظاہر ہے کہ لوگوں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے۔ تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت کی جائے اور اس کے عذابوں سے بچنے کے لیے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔[1] 2۔ اسی طرح آگے چل کر آیت (۴۸) میں فرمایا ہے: {وَ لَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ اَذٰھُمْ وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا} ’’اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور نہ اُن کے تکلیف دینے پر نظر کرنا اور اللہ پر بھروسا رکھنا اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔‘‘ -124 زبانی کہنے سے کوئی عورت ماں اور کوئی لڑکا بیٹا نہیں بنتا: سورۃ الاحزاب (آیت:۴،۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰئِیْ۔ٓ تُظٰھِرُوْنَ مِنْھُنَّ اُمَّھٰتِکُمْ وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ وَ اللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ . اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا
[1] تفسیر ابن کثیر (۴/ ۲۰۵)