کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 449
تعلقات قائم کرنا بھی منع اور حرام ہے۔امام شوکانی نے اسی مفہوم کو راجح قرار دیا ہے۔احادیث میں اس کا جو سببِ نزول بیان کیا گیا ہے،اس سے بھی اسی کی تایید ہوتی ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بدکار عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت طلب کی،جس پر یہ آیت نازل ہوئی،یعنی انھیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔اسی سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ ایک شخص نے جس عورت سے یا عورت نے جس مرد سے بدکاری کی ہو ان کا آپس میں نکاح جائز نہیں،ہاں اگر وہ خالص توبہ کر لیں تو پھر ان کے درمیان نکاح جائز ہے۔[1] 2۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں نکاح سے مراد معروف نکاح نہیں ہے،بلکہ جماع کے معنیٰ میں ہے اور مقصد زنا کی شناعت و قباحت بیان کرنا ہے۔مطلب یہ ہے کہ بدکار مرد اپنی جنسی خواہش کی ناجائز طریقے سے تسکین کے لیے بدکار عورت کی طرف اور اسی طرح بدکار عورت بدکار مرد کی طرف رجوع کرتی ہے،مومنوں کے لیے ایسا کرنا یعنی زنا کاری حرام ہے۔ مشرک مرد اور عورت کا ذکر اس لیے کر دیا کہ شرک بھی زنا سے ملتا جلتا گناہ ہے،جس طرح مشرک اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتا ہے،اسی طرح ایک زناکار اپنی بیوی چھوڑ کر یا بیوی اپنے خاوند کو چھوڑ کر غیروں سے اپنا منہ کالا کراتی ہے،یوں مشرک اور زانی کے درمیان ایک عجیب معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔ -108 بہتان طرازی نہ کرنا: سورۃ النور (آیت:۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} ’’اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا (کام) نہ کرنا۔‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۲۲۷)