کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 443
بھی نہ کرو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی سن نہ سکیں۔ -101 یہ نہ کہوکہ کل کروں گا: سورۃ الکہف (آیت:۲۳،۲۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا . اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّھْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا } ’’اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کر دوں گا،مگر (ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر) اللہ چاہے تو (کر دوں گا) اور جب اللہ کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو اور کہہ دو کہ اُمید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے گا۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں پوچھی تھیں:روح کی حقیقت کیا ہے؟ اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمھیں کل جواب دوں گا،لیکن اس کے بعد ۱۵ دن تک جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نہیں آئے۔پھر جب آئے تو اللہ تعالیٰ نے اِن شاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔آیت میں ’’غد‘‘ سے مراد مستقبل ہے،یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو اِن شاء اللہ ضرور کہا کرو،کیونکہ انسان کو تو پتا نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے،اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں ؟ -102 غافل دل والے خواہش پرست کی بات نہ مانیں: سورۃ الکہف (آیت:۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: