کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 442
سورت بنی اسرئیل (آیت:۳۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا} ’’اور (اے بندے !) جس چیز کا تجھے علم نہیں،اُس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہو گی۔‘‘ جس چیز کا علم نہ ہو،اس کے پیچھے مت لگو،یعنی بدگمانی مت کرو اور کسی کی ٹوہ میں مت رہو،اسی طرح جس چیز کا علم نہیں،اس چیز پر عمل مت کرو اور جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے،اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا:کیا اس نے سنا تھا؟ آنکھ سے سوال ہوگا:کیا اس نے دیکھا تھا؟ اور دل سے سوال ہوگا:کیا اس نے جانا تھا؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں،یعنی ان اعضا کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا۔ -100 زیادہ بلند نہ زیادہ آہستہ: سورت بنی اسرائیل (آیت:۱۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتْ بِھَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا} ’’اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔‘‘ اس آیت کے سبب و شانِ نزول میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر رہتے تھے،جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند کر لیتے،مشرکین قرآن سن کر قرآن کو سب و شتم کرتے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر بُرا بھلا کہیں اور آواز اتنی پست