کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 430
’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے،اس پر قحط سالی،سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے۔‘‘[1] یہ ڈنڈی مارنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ایک بڑا ہولناک دن آنے والا ہے،جس میں سب لوگ رب العالمین کے سامنے ہوں گے،جو تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف اور قیامت کا ڈر نہیں ہے۔احادیث میں آتا ہے کہ جس وقت لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے تو پسینا انسانوں کے آدھے آدھے کانوں تک پہنچا ہوگا۔[2] ایک اور روایت میں ہے کہ قیامت والے دن سورج مخلوق کے اتنا قریب ہوگا کہ ایک میل کی مقدار کے قریب فاصلہ ہوگا۔حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میل سے زمین کی مسافت والا میل مراد لیا ہے یا وہ سلائی جس سے سرمہ آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔پس لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے،یہ پسینا کسی کے ٹخنوں تک،کسی کے گھٹنوں تک،کسی کی کمر تک ہوگا اور کسی کے لیے یہ لگام بنا ہوا ہوگا،یعنی اس کے منہ تک پسینا ہوگا۔[3] 3۔ سورۃ الاعراف (آیت:۸۵) میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ} ’’اور مدین کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا (تو) انھوں نے کہا کہ
[1] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۴۰۱۹) الصحیحۃ (۱۰۶) [2] صحیح البخاري،تفسیر سورۃ المطففین (۴۹۳۸) [3] صحیح مسلم،صفۃ القیامۃ (۲۸۶۴)