کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 425
{وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ! لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ} ’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا اُس کے سوا کوئی معبود نہیں،اُس کی (پاک) ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔حکم اُسی کا ہے اور اُسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔‘‘ یعنی کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،نہ دعا کے ذریعے سے،نہ نذر و نیاز کے ذریعے اور نہ قربانی ہی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں،جو صرف ایک اللہ کے لیے خاص ہیں۔قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے،جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو مافوق الاسباب طریقے سے پکارنا،ان سے استغاثہ کرنا،ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا،یہ ان کی عبادت ہی ہے،جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔ 5۔ سورۃ الجن (آیت:۱۸) میں ارشادِ ربانی ہے: {وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} ’’اور یہ کہ مسجدیں (خاص) اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔‘‘ آیت کا مطلب واضح ہے کہ مسجدوں کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے،اس لیے مسجدوں میں کسی اور کی عبادت،کسی اور سے دعا و مناجات،کسی اور سے استغاثہ و استمداد جائز نہیں۔یہ امور ویسے تو مطلقاً ہی ممنوع ہیں اور کہیں بھی غیراللہ کی عبادت جائز نہیں ہے،لیکن مسجدوں کا بہ طورِ خاص اس لیے ذکر کیا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد ہی اللہ کی عبادت ہے۔اگر یہاں بھی غیر اللہ کو پکارنا شروع کر دیا گیا تو یہ نہایت ہی قبیح اور ظالمانہ حرکت ہوگی،لیکن بدقسمتی سے بعض نادان مسلمان