کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 421
-73 اہلِ کفر و نفاق کا جنازہ نہ پڑھیں: سورۃ التوبۃ (آیت:۸۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ فٰسِقُوْنَ} ’’اور (اے پیغمبر!) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر) کھڑے ہونا،یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی تو نافرمان (ہی مرے)۔‘‘ یہ نمازِ جنازہ اور دعاے مغفرت نہ کرنے کی علّت ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کا خاتمہ کفر و نفاق اور فسق پر ہو،ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ان کے لیے دعاے مغفرت ہی کرنی چاہیے۔[1] -74 مشرکین کے لیے دعاے مغفرت نہ کریں: سورۃ التوبہ (آیت:۱۱۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ} ’’پیغمبر اور مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہلِ دوزخ ہیں تو اُن کے لیے بخشش مانگیں،گو وہ اُن کے قرابت دار ہی ہوں،اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘ صحیح بخاری اور مسند امام احمد میں ابن المسیب سے روایت ہے کہ ابو طالب جب بسترِ مرگ پر تھے تو نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،ان کے پاس ابو جہل اور
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۶۷۰) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۳/ ۲۷۷۴)