کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 411
ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ اُن کے کہے پر چلے تو بے شک تم بھی مشرک ہوئے۔‘‘ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا،اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے یہی معنیٰ بیان کیے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا۔امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے،تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے،چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے۔وہ{وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ}کو غیر اللہ کے نام ذبح کیے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ -62 فضول خرچی کی ممانعت: 1۔ سورۃ الانعام (آیت:۱۴۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ} ’’اور بے جا نہ اڑانا کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاور نہ کرو،ایسا نہ ہو کہ کل کو تم محتاج ضرورت مند ہو جائو۔بعض کہتے ہیں کہ اس کا تعلق حکام سے ہے،یعنی صدقات اور زکات کی وصولی میں حد سے تجاور نہ کرو۔امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاقِ آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو،کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لیے مضر ہے۔دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا،جس سے واضح ہوتا ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ 2۔ سورۃ الاعراف (آیت:۳۱) میں ارشادِ الٰہی ہے: {یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا