کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 407
’’مومنو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں،اُن کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہو جاتا ہے،اس لیے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا ہے،جس پر آیت نازل ہوئی۔[1] اسی طرح اس سببِ نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم زہد و عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے مثلاً عورت سے نکاح کرنے،رات کے وقت سونے،دن کے وقت کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہتے تھے۔نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع فرمایا۔[2] حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی،ان کی بیوی کی شکایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی روکا۔[3] بہر حال اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کر لینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے،چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا مشروبات سے ہو،لباس سے ہو یا مرغوبات و جائز خواہشات سے۔ مسئلہ:اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی،سوائے عورت کے،البتہ اس صورت میں بعض علما یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیثِ صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے،کیونکہ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی کفارۂ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔
[1] صحیح سنن الترمذي للألباني (۳؍ ۴۶) [2] صحیح البخاري (۵۰۶۳) شرح صحیح مسلم مع النووي (۵/ ۹/ ۱۷۵۔۱۷۶) [3] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۳۶۹) مسند أحمد (۶/ ۲۶۸)