کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 401
اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا: (( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَاریٰ عِیْسیٰ ابْنَ مَرْیَم،فَاِنَّمَا أَنَا عَبْدُہٗ،فَقُوْلوْا:عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ )) [1] ’’تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا،جس طرح عیسایوں نے عیسی ابن مریم( علیہما السلام ) کو بڑھایا،میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں،پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔‘‘ لیکن افسوس امتِ محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی،جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امتِ محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو الٰہی صفات سے متصف ٹھہرا دیا،جو دراصل عیسائیوں کا وتیرہ تھا۔اسی طرح علما و فقہا کو دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے،ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا۔فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سچ فرمایا نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے: (( لَتَتَّبِعَنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ أَوْ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ۔۔)) [2] ’’تم بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ ضرور پچھلی امتوں کی مکمل پیروی کرو گے۔‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ’’کُن‘‘ سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی یہ لفظ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچایا گیا۔روحُ اللہ کامطلب وہ نفخہ (پھونک) ہے،جو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا،جسے اللہ تعالیٰ نے باپ
[1] صحیح البخاري،کتاب الأنبیاء،رقم الحدیث (۳۴۴۵) مسند أحمد (۱؍ ۲۳،۱۴۷) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۷۳۲۰) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶/ ۲۶۶۹)