کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 400
لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا}
’’اے اہلِ کتاب! اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو،مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ اللہ تھے اور نہ اس کے بیٹے بلکہ) اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے،تو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور (یہ) نہ کہو (کہ اللہ) تین ہیں (اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔اللہ ہی اکیلا معبود ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو،جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔‘‘
غلو یا حد سے بڑھنے کا مطلب ہے کسی چیز کو حد سے بڑھا دینا،جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انھیں رسالت و بندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام و حلال کے اختیار سے نواز دیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ}[التوبۃ:۳۱]
’’انھوں نے اپنے علما اور اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔‘‘
یہ رب بنانا حدیث کے مطابق ان کے حلال کیے کو حلال اور حرام کیے کو حرام سمجھنا ہے۔دراں حالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے،لیکن اہلِ کتاب نے یہ حق بھی اپنے علما و غیرہ کو دے دیا۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہلِ کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیشِ نظر