کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 399
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو،جیسے آج کل کے امرا،فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے،سخت گناہ ہے۔{اِنَّکُمْ اِذاً مِّثْلُھُمْ}کی وعیدِ قرآنی اہلِ ایمان کے اندر کپکپی طاری کر دینے کے لیے کافی ہے،بشرطیکہ دل میں ایمان ہو۔ -51 علانیہ کسی کو برا کہنے کی ممانعت: پارہ6{لَا یُحِبُّ اللّٰہُ}سورۃ النساء (آیت:۱۴۸) میں فرمایا: {لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا} ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے،مگر وہ جو مظلوم ہو اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ کو پسند نہیں کسی کی بری بات کا ظاہر کرنا۔شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو۔بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ،مگر ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو جس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے۔ -52 حد سے تجاوز،غلو اور نادانوں کی پیروی نہ کرو: 1۔ سورۃ النساء (آیت:۱۷۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ