کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 385
ارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَ اکْسُوْھُمْ وَ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا . وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی۔ٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا} ’’اور بے عقلوں کو اُن کا مال جسے اللہ نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے،مت دو (ہاں ) اس میں سے اُن کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور اُن سے معقول باتیں کہتے رہو۔اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو،پھر (بالغ ہونے پر) اگر اُن میں عقل کی پختگی دیکھو تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی میں اور جلدی میں نہ اڑا دینا،جو شخص آسودہ حال ہو،اُس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز کرنا چاہیے اور جو بے مقدور ہو،وہ مناسب طور پر (یعنی بقدرِ خدمت) کچھ لے لے اور جب اُن کا مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کر لیا کرو اور حقیقت میں تو اللہ ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘ یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب تک تمھارے پاس رہا،تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں۔عام لوگوں کو تو تمھاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتا نہ چلے،لیکن اللہ تعالیٰ سے تو