کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 383
بدلو اور نہ اُن کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔‘‘ یتیم جب بالغ اور باشعور ہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو،’’خبیث‘‘ سے گھٹیا چیزیں اور ’’طیب‘‘ سے عمدہ چیزیں مراد ہیں،یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لیے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو۔بدلایا گیا مال اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے،لیکن تمھاری اس بددیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا،بلکہ تمھارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا ہے۔اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنو ع ہے،لیکن اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔ 2۔ سورۃ النساء (آیت:۶) میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی۔ٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا} ’’اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو،پھر (بالغ ہونے پر) اگر اُن میں عقل کی پختگی دیکھو تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی میں اور جلدی میں نہ اڑا دینا،جو شخص آسودہ حال ہو اُس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز کرنا چاہیے اور جو بے مقدور ہو،وہ مناسب طور پر (بقدرِ