کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 372
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ایسی سخت وعید ہے جو دوسری کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفۂ وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے۔[1] 3۔ سورت آل عمران (آیت:۱۳۰) میں ارشادِ الٰہی ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} ’’اے ایمان والو! دُگنا چوگنا یا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو۔‘‘ چونکہ غزوۂ اُحد میں ناکامی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور مالِ دنیا کے لا لچ کے سبب ہوئی تھی،اس لیے اب طمعِ دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل ’’سود‘‘ سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کی تاکید کی جا رہی ہے۔’’بڑھا چڑھا کر سود نہ کھائو‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو سود جائزہے،بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب مطلقاً حرام ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو،جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے،جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تویہ فعل تمھیں کفر تک پہنچا سکتا ہے۔سود کھانے میں تمھارا بھلا نہیں بلکہ اللہ سے ڈر کر سود چھوڑ دینے میں تمھارا بھلا ہے۔ 4۔ سورۃ الروم (آیت:۳۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ
[1] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۸۵)