کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 37
کی تلاوت بھی باقاعدہ ہوتی رہتی ہے،مگر بہت کم لوگ اس کے معنیٰ سمجھ کر اسے پڑھتے ہیں،جبکہ قرآنِ پاک سراپا ہدایت اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے مشعلِ راہ ہے۔میری یہ دیرینہ خواہش و تمنا رہی کہ جو میں نے سیکھا اور سمجھا ہے،اُسے منظرِ عام پر لاؤں اور بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کن اعمال کا مطالبہ کر رہا ہے،جنھیں سر انجام دے کر ہم جنت کے حق دار بن جائیں اور کن اعمال سے روکتا ہے،تاکہ ان سے باز رہ کر ہم دوزخ کی آگ سے بچ جائیں۔
اسی دیرینہ خواہش کی بنا پر میں کئی سال سے اس کام پر لگی رہی۔میرے والدین بھی اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ اپنے بچوں میں سے کوئی کچھ لکھ کر لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔میرے دماغ میں والدین کی خواہش پوری کرنے کی بھی تمنا تھی۔جب ترتیب کا یہ کام کر چکی تو سب سے پہلے میں نے اپنی سب سے بڑی بہن صاحبہ سے ذکر کیا تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ ان کے شوہر یعنی میرے بہنوئی محترم اختر حسین دہلوی سے تعاون حاصل کریں۔جب ان سے اظہار کیا تو بہت خوشی سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے انھوں نے میری ہمت افزائی کی۔وہ چونکہ دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے،اردو سے بڑا شغف رکھنے والے اور ساتھ ہی ساتھ ایک شاعر بھی تھے،لہٰذا اُنھوں نے اس کام میں یہ مدد کی کہ نظرثانی کرتے گئے اور اپنی پہلی فرصت میں اس کام کو دیکھا اور پوری لگن سے نظرثانی کی۔انھوں نے میرے اس کام کو سراہنے کے بعد بڑی خوشی ظاہر کی کہ جلد از جلد اس کام کو پورا کیا جائے۔
اس کے بعد میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھوں،کیونکہ جب تک قرآنِ پاک سمجھ میں نہ آئے،یہ کام کرنا دشوار ہوگا،اس لیے قرآنِ کریم کا لفظی ترجمہ اور تفسیر سیکھنے میں مصروف ہوگئی۔اسی مصروفیت میں مشغول رہی،لیکن