کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 369
’’مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کر دینا،جو لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو اُس (کے مال) کی مثال اُس چٹان کی سی ہے،جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اُس پر زور کی بارش برس کر اُسے صاف کر ڈالے (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ اور خیرات کرکے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں،بلکہ ان لوگوں کا وتیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لیے خرچ کرتے ہیں۔دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھریلی چٹان کی طرح ہے،جس پر مٹی ہو،کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس میں بیج بو دے،لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہو جائے،یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی،اس طرح ریاکار کو بھی اسی کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ -32 ناپسندیدہ چیز کا صدقہ نہ کرنا: سورۃ البقرۃ (آیت:۲۶۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ}