کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 365
{وَ لَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا} ’’اُن کو جائز نہیں کہ اللہ نے جو کچھ اُن کے شکم میں پیدا کیا ہے،اُس کو چھپائیں اور اُن کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں۔حیض نہ چھپائیں،مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک یا دو حیض آئے ہیں۔مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو) یا اگر رجوع نہ کرنا چاہتی ہو تو یہ کہہ دے کہ مجھے تو تین حیض آچکے ہیں،یوں خاوند کا حقِ رجوع ضائع کر دے۔اسی طرح حمل نہ چھپائیں،کیوں کہ وہ نطفہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہو جائے گا اور یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔ -27 طلاق دینے پر مہر واپس لینے کی ممانعت: سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْ ھُنَّ شَیْئًا} ’’اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم اُن کو دے چکے ہو،اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔‘‘ یعنی طلاق دینے کے بعد تمھارے لیے حلال نہیں کہ تم نے انھیں جو حقِ مہر دیا تھا،اس میں سے کچھ واپس لے لو۔لیکن اگر عورت خلع کا مطالبہ کرے اور عورت کے مطالبے پر طلاق ہو تو پھر خاوند کے لیے حق مہر واپس لینا درست ہے۔