کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 347
شہدا کو مردہ نہ کہنا،ان کے اعزاز اور تکریم کے لیے ہے۔ان کی یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے،جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ زندگی اعلیٰ قدر مراتب انبیا و مومنین،حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں،پھرتی رہتی ہیں۔[1] 2۔ سورت آل عمران (آیت:۱۶۹) میں بھی ارشادِ الٰہی ہے: {وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ} ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں ) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور اُن کو رزق مل رہا ہے۔‘‘ -11 شیطان کی پیروی مت کرو: 1۔ سورۃ البقرۃ (آیت:۱۶۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} ’’لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو،وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو،جس طرح مشرکین نے کیا کہ اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کر لیتے تھے۔حدیث میں آتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
[1] دیکھیں : تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۶۸)