کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 341
-5 مساجد میں ذکرِ الٰہی سے روکنا ظلم اور باعثِ عذابِ عظیم ہے: سورۃ البقرۃ (آیت:۱۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِھَا اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے،جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو۔ان لوگوں کو کچھ حق نہیں ہے کہ وہ اُن میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا،یہ کون ہیں ؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں،جنھوں نے شاہِ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا،لیکن حافظ ا بن کثیر رحمہ اللہ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکینِ مکہ کو قرار دیا ہے،جنھوں نے ایک تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مکے سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔پھر صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے قاتلوں کو مکے میں داخل نہیں ہونے دیں گے،حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے کہ اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے،بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا،اقامتِ شریعت