کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 336
(یعنی پھر کافر ہو جائے)،اُس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی،یہی تو نقصان صریح ہے۔یہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو نہ اُسے نقصان پہنچائے اور نہ اُسے فائدہ دے سکے،یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔‘‘ 8 سورت لقمان (آیت:۱۳) میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَ ھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} ’’اور (اس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا،شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا،جس سے واضح ہوا کہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔ شرک کو ’’ظلمِ عظیم‘‘ کہنا،بعض کے نزدیک حضرت لقمان علیہ السلام ہی کا قول ہے۔بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ}کے نزول کے تعلق سے مروی ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ’’ظلمِ عظیم‘‘ یعنی شرک ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت{اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ}کا حوالہ دیا۔[1] مگر در حقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی تائید ہوتی ہے نہ تردید۔ 9 پھر سورت لقمان (آیت:۱۵) میں فرمایا: {وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا}
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۷۷۶)