کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 306
پھر ان کا نکاح برقرار رہ سکتا ہے۔چاہے خاوند عورت کے بعد ہجرت کرکے آئے۔
مسلمانوں کو کہا جارہا ہے کہ یہ عورتیں،جو ایمان کی خاطر اپنے کافر خاوندوں کو چھوڑ کر تمھارے پاس آگئی ہیں،تم ان سے نکاح کرسکتے ہو،بشرطیکہ ان کا حق مہر تم ادا کر دو۔تاہم یہ نکاح مسنون طریقے ہی سے ہوگا۔یعنی ایک تو انقضاے عدت (استبراے رِحم) کے بعد ہوگا۔دوسرے اس میں ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے۔البتہ اگر اس عورت سے صرف نکاح ہوا جماع نہیں ہو تو پھر بلا عدت فوری نکاح جائز ہے۔
-300 کافروں سے جاملنے والی عورتوں کے شوہروں کے لیے حکم:
سورۃ الممتحنہ (آیت:۱۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَــٰاتُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ اَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ}
’’اور اگر تمھاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمھارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور اس کا مہر وصول نہ ہوا ہو)،پھر تم ان سے جنگ کرو (اور ان سے تم کو غنیمت ہاتھ لگے) تو جن کی عورتیں چلی گئی ہیں ان کو (اس مال میں سے) اتنا دے دو،جتنا انھوں نے خرچ کیا تھا اور اللہ سے ڈرو،جس پر تم ایمان لائے ہو۔‘‘
اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں کے حق مہر،جو تمھیں ان کے کافر شوہروں کو ادا کرنے تھے،وہ تم اُن مسلمانوں کو دے دو،جن کی عورتیں کافر ہونے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں اور انھوں نے مسلمانوں کو مہر ادا نہیں کیا (یعنی یہ بھی سزا کی ایک صورت ہے)،دوسرا مفہوم یہ ہے