کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 305
نے (ان پر) خرچ کیا ہو،وہ ان کو دے دو اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کر لو اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو واپس دے دو)،اور جو کچھ تم نے ان پر خرچ کیا ہو تم ان سے طلب کر لو اور جو کچھ انھوں نے (اپنی عورتوں پر) خرچ کیا ہو،وہ تم سے طلب کر لیں یہ اللہ کا حکم ہے،جو تم میں فیصلہ کیے دیتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
معاہدۂ حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا،تو اس کو واپس کرنا پڑے گا،لیکن اس میں مرد و عورت کی صراحت نہیں تھی۔بظاہر ’’کوئی‘‘ میں دونوں ہی شامل تھے۔
چنانچہ بعد میں بعض عورتیں مکے سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے پاس چلی گئیں تو کفار نے ان کی وپسی کا مطالبہ کیا،جس پر اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی اور یہ حکم دیا۔امتحان لینے کا مطلب ہے،اس امر کی تحقیق کر لو کہ ہجرت کرکے آنے والی عورت جو ایمان کا اظہار کر رہی ہے،اپنے کافر خاوند سے ناراض ہوکر یا کسی مسلمان کے عشق میں یا کسی اور غرض سے تو نہیں آئی یا وہ صرف یہاں پناہ لینے کی خاطر تو ایمان کا دعویٰ نہیں کر رہی ہے۔
انھیں ان کے کافر خاوندوں کے پاس واپس نہ کرنے کی علت یہ ہے کہ اب کوئی مومن عورت کسی کافر کے لیے حلال نہیں،جیسا کہ ابتداے اسلام میں یہ جائز تھا۔چنانچہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو العاص بن ربیع کے ساتھ ہوا تھا،جب کہ وہ مسلمان نہیں تھے۔لیکن اس آیت نے آیندہ کے لیے ایسا کرنے سے منع کر دیا،اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں،اس لیے انھیں کافروں کے پاس مت لوٹاؤ،ہاں اگر شوہر بھی مسلمان ہو جائے تو