کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 301
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ . ئَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقٰتٍ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکَٰوۃَ وَاَطِیعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ}
’’مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو،یہ تمھارے لیے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے اور اگر خیرات تم کو میسر نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو،ڈر گئے ہو؟ پھر جب تم نے (ایسا) نہ کیا اور اللہ نے تمھیں معاف کر دیا تو نماز پڑھتے اور زکات دیتے رہو اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرماں برداری کرتے رہو اور جو کچھ تم کرتے ہو،اللہ اس سے خبردار ہے۔‘‘
ہر مسلمان نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کرنے کی خواہش رکھتا تھا،جس سے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاصی تکلیف ہوتی۔بعض کہتے ہیں کہ منافقین یوں ہی بلا وجہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منا جات میں مصروف رہتے تھے،جس سے مسلمان تکلیف محسوس کرتے تھے،اس لیے اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کے رحجانِ عام کی حوصلہ شکنی ہو۔یہ امر گو استحباباً تھا،پھر بھی مسلمانوں کے لیے شاق تھا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے جلدہی اسے منسوخ فرما دیا۔
-296 مالِ فے کی تقسیم:
سورۃ الحشر (آیت:۷،۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: