کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 294
ہی نہیں،لیکن سند اور امرِ واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے۔اس لیے اسے ایک صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے۔تاہم شانِ نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے،جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے۔ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے،جو بالخصوص بدکردار،فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے ہو تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے،تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔ -288 اخوتِ ایمانی اور باہمی صلح و صفائی: سورۃ الحجرات (آیت:۹،۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَآئَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ . اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} ’’اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادہ کرے توزیادتی کرنے والے سے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے،پس جب وہ رجوع کرے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لوکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں،تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو،تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘