کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 292
ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔جو لوگ پیغمبر الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں،اللہ نے ان کے دل تقوے کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔جولوگ تم کو حجروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں،ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کیے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو،بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد،اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے،جو کسی بھی صاحبِ ایمان کے لائق نہیں،اسی طرح کوئی فتویٰ قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔ سورۃ الحجرات کی آیت (۳) میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں ( گنوار قسم کے لوگوں ) کے بارے میں نازل ہوئی،جنھوں نے ایک روز دوپہر کے وقت،جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولے کا وقت تھا،حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں،تاکہ