کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 282
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے،جس کی اس کے پاس کچھ سند نہیں تو اس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا،کچھ شک نہیں کہ کافر فلاح و راست گاری نہیں پائیں گے۔‘‘ -273 بشریتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور وحیِ الٰہی: سورت حٰم السجدہ (آیت:۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ} ’’کہہ دو کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم،(ہاں ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود اللہ واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے۔‘‘ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ یہ کہہ دیں کہ میرے اور تمھارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے،بجز وحیِ الٰہی کے،پھر یہ بُعد و حجاب کیوں ؟ علاوہ ازیں میں جو یہ دعوت پیش کر رہا ہوں،یہ بھی ایسی نہیں کہ عقل و فہم میں نہ آسکے،پھر اس سے اعراض کیوں ؟ -274 برداشت کرنا اور برائی کا جواب بھلائی سے دینا: سورت حم السجدہ (آیت:۳۴،۳۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ . وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ} ’’اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق