کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 281
بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘ -272 اللہ سے دعائیں مانگو اور تکبر نہ کرو: پارہ24{فَمَنْ اَظْلَمُ}سورۃ المومن (آیت:۶۰) میں فرمایا: {وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ} ’’اور تمھارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو،میں تمھاری (دعا) قبول کروں گا،جو لوگ میری عبادت سے راہِ تکبر اپناتے ہیں،عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ اس سے پہلی آیت میں اللہ نے وقوعِ قیامت کا تذکرہ فرمایا ہے،لہٰذا اس آیت میں ایسی راہنمائی دی جارہی ہے،جسے اختیار کرکے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے۔اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے،یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔جیسا کہ حدیث میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا اصل قرار دیا گیا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے،یعنی اللہ سے جلبِ نفع اور دفعِ ضرر کا سوال کرنا،کیونکہ دعا کے شرعی اور حقیقی معنیٰ طلب کرنے کے ہیں،دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے۔علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنیٰ کے اعتبار سے اور حدیثِ مذکور کی رو سے بھی عبادت ہے،کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ جیسا کہ سورۃ المومنون (آیت:۱۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ لاَ بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ}